Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل
از کنول اکرم 
قسط نمبر1

اساورہ بیٹا اُٹھ جاؤ یونیورسٹی نہیں جانا کیا آج ؟؟
ماما جانی بس پانچ منٹ اور۔۔۔۔۔ 
اُف کیا کروں میں تمہارا پھر تم مجھے ہی کہو گی کہ میں نے اُٹھایا نہیں ٹائم سے۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم اس سے بلینکٹ کھینچتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔
آہ میری پیاری ماما اُٹھ گئی میں۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے اُٹھی تھی۔
اب جلدی سے فریش ہو جاو میں ناشتہ لگاتی ہوں ٹیبل پہ۔۔۔۔وہ کمرے سے باہر جاتے بولی تھیں۔۔۔
اوکے ماما۔۔۔۔۔۔ وہ ان کے پیچھے سے چیخی تھی  😉😉
دس منٹ بعد وہ فریش سی ڈائنینگ ٹیبل پہ بیٹھی تھی۔۔۔نادیہ بیگم اُس کے سامنے پراٹھا اور آملیٹ رکھ رہی تھیں
گڈ مارننگ ۔۔۔۔۔۔۔مراد صاحب چئیر پہ بیٹھتے ماں بیٹی سے مخاطب ہوئے تھے۔۔۔
گڈ مارننگ بابا ۔۔۔۔۔۔۔وہ پراٹھا کھاتے بولی تھی۔
ساوی بیٹا غلط بات آرام سے ناشتہ کرو ۔۔۔۔بابا نے کہا تھا۔
جی بابا ۔۔۔۔۔وہ پھر ویسے ہی کھاتے ہوئےشرارت سے بولی تھی۔۔😀
نادیہ بیگم اور مراد صاحب اُس کی شرارت پہ ہنس پڑے تھے۔۔۔۔ 
درید اُٹھ گیا ۔۔۔۔مراد صاحب نے نادیہ بیگم سے پوچھا تھا۔۔۔
نہیں ابھی آج آفس نہیں جانا اُس نے اسی لئیے اب تک سو رہا ہے۔۔۔۔نادیہ بیگم اُن کو ناشتہ سرو کرتے بولی تھیں۔
یا ہو اس کا مطلب آج میں درید کے ساتھ یونی جاؤں گی۔۔۔ ساوی خوشی سے چہکی تھی ۔۔۔
بلکل نہیں اُس کی طبیعت نہیں ٹھیک اسی لیے وہ آفس بھی نہیں جا رہا۔۔۔وہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولی تھیں۔۔۔۔
کیا ہوا اُنہیں ۔۔۔۔۔وہ ایک دم فکر مند ہوئی تھی اور چئیر سے اُٹھی تھی ۔
رات کو کافی دیر کام کرتا رہا اس لیے تھکاوٹ سے بخار ہو گیا ہے۔۔۔۔نادیہ بیگم مصروف سی بول رہی تھیں۔۔۔۔
میں ابھی اُن کو دیکھ کہ آتی ہوں ۔۔۔۔وہ اُس کے کمرے کی جانب بڑھی تھی جبکہ نادیہ بیگم اسے پکارتی رہ گئی تھیں۔۔۔۔
*************
وہ آہستہ سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی پورا کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا آگے بڑھ کے اس نے کھڑکی سے پردے ہٹائے تھے جس سے سورج کی روشنی چھن سے اندر آنے لگی تھی۔۔۔۔
وہ ہلکا سا کسمسایا تھا پھر کروٹ بدل کے سو گیا 
شاید زیادہ تھک گئے ہیں ۔۔۔۔۔اس نے سوچا پھر وہ اس کی طرف بڑھی تھی اور اسے آواز دی 
درید؟؟ اُٹھ جائیں دیکھیں صُبح ہو گئی جلدی سے فریش ہوں پھر ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔۔۔ وہ اس کا کندھا ہلاتے بولی تھی۔
ساوی کی آواز سُن کے اُس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں کُچھ دیر وہ اُسے غائب دماغی سے دیکھتا رہا ۔۔۔۔پھر جیسے اُسے ہوش آیا تھا۔۔
تم یونی نہیں گئی ۔۔۔۔ آنکھیں مسلتے پوچھا گیا تھا 
جانے لگی تھی پھر ماما نے بتایا آپ کی طبیعت نہیں ٹھیک ۔۔۔۔ اتنا کام کیوں کرتے ہیں آپ اپنی صحت کا بھی دھیان نہیں رکھتے۔۔۔۔ وہ فکرمندی سے بولتے ہوئے اب ڈانٹنے لگی تھی۔۔۔
تم جو ہو میرا دھیان رکھنے کے لیے۔۔۔۔۔ وہ زیرِ لب مسکرایا تھا 
میں تو ہوں مگر جب میں نہیں ہوتی تب تو رکھا کریں۔۔۔۔۔ وہ خفگی سے بولی تھی۔
اچھا بابا ٹھیک ہے آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا اوکے؟؟؟
ہاہاہا اوکے ۔۔۔۔۔ اب جلدی سے فریش ہو کے آئیں اور چلیں ڈاکٹر کے پاس۔۔۔۔
اوکے تم چلو مِیں آتا ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ واش روم کی جانب بڑھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
وہ بھی روم سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔
***************
مراد صاحب اور فرہاد صاحب دو ہی بھائی تھے اُن دونوں کی شادیاں ماں باپ باپ کی پسند سے ہوئی تھیں اور وہ خوش بھی تھے کیونکہ دونوں کی شریکِ حیات  بہت اچھی تھیں۔۔۔۔
مگر اِن کے ماں باپ جانبر نہ ہو سکے اور آگے پیجھے دونوں ہی دُنیا سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔ تب اساورہ ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی جب کہ اُس کا بھائی شایان پانچ سال کا تھا جب کہ درید جو کہ فرہاد صاحب کا اکلوتا بیٹا تھا وہ بھی پانچ سال کا تھا۔۔۔۔
دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے انہی دنوں میں اساورہ پیدا ہوئی تھی اُس کا نام فرہاد صاحب نے رکھا تھا اُنہیں یہ چھوٹی سی گڑیا بہت پسند تھی اُن کی خواہش تھی کہ اُن کی بھی بیٹی ہوتی لیکن ڈاکٹر نےدرید کی پیدائش پہ ہی کہہ دیاتھا کہ حنا بیگم (درید کی ماں) دوبارہ ماں نہیں بن سکتیں کیونکہ درید کی پیدائش کے وقت کمپلیکیشنز آگیئں تھیں۔۔۔۔
اُنہوں نے اساورہ کو اپنی بیٹی مان لیا تھا جس نے اُن کی بیٹی کی کمی پوری کر دی تھی۔۔۔۔۔
مگر وہ زیادہ دیر اُس خوشی کو منا نہ پائے اساورہ جب ایک سال کی ہوئی تب فرہاد صاحب اور حنا بیگم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور دونوں جان کی بازی ہار گئے۔۔۔۔۔
تب درید گم سم سا ہو گیا تھا بہت کم بولتا ہر وقت ماما کو یاد کرتا رہتا کبھی بابا کے پاس جانے کی ضد کرتا ایسے میں نادیہ بیگم نے اساورہ اور شایان کے ساتھ درید کو بھی اپنا بیٹا مان لیا اور اُسے پیار سے بہلایا اور وہ اساورہ کے ساتھ جلدی بہل بھی گیا سکول سے آنے کے بعد ہر وقت اُس کے ساتھ رہتا ساوی نک نیم بھی اساورہ کو درید نے ہی دیا تھا ساوی میں درید کی جان تھی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
***********
ہیلو۔۔۔۔۔وہ فون اُٹھاتے ہوئے بولا تھا 
باس میں حیدر بول رہا ہوں۔۔۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا ۔
جانتا ہوں کام کی بات کرو کُچھ پتہ چلا اُس کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔ وہ تیکھے لہجے میں بولا ۔۔
نہ نہیں باس کُچھ بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ہر جگہ ڈھونڈا مگر کہیں کوئی سراغ نہیں ملا ۔۔۔۔۔۔ڈرتے ڈرتے جواب دیا گیا ۔۔۔۔۔
تو میں تمہیں پیسے کس کام کے دیتا ہوں ۔۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی لڑکی نہیں ڈھونڈ سکتے تم ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولا نہیں دھاڑا تھا ۔۔ 
ؑباس کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ حیدر منمنایا تھا ۔
کوشش نہیں رزلٹ چاہئیے مجھے ,۔۔۔۔۔۔۔۔وہ حتمی لہجے میں بولا تھا ۔
جی باس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیدر دھیمے سے بولا تھا 
وہ بے بسی سے فون رکھ چکا تھا۔۔۔۔
کہاں ڈھونڈوں میں تمہیں۔۔۔۔ پلیز واپس آجاو پھر جو چاہے سزا دینا کم از کم میرے سامنے تو رہو گی۔۔۔۔۔۔۔ وہ درد بھرے لہجے میں بولا تھا۔۔۔ اس کے انداز میں ایک وحشت سی تھی ۔۔۔۔۔

   1
0 Comments